پاکستان مناسب پالیسیوں سے 2075 تک دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن جائے گا، تحقیقی مقالہ
شیئر کریں
گولڈمین سیکس کی طرف سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ مناسب پالیسیوں سے پاکستان 2075 تک دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن جائے گا۔ ماہر معاشیات کیون ڈیلی اور ٹاڈاس گیڈمیناس کی تصنیف اور ”2075 کا راستہ ” کے عنوان سے اس مقالے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2075 تک پانچ بڑی معیشتیں چین، بھارت ، امریکا، انڈونیشیا اور نائیجیریا ہوں گی۔ گولڈمین سیکس اب تقریباً دو دہائیوں سے ممالک کی طویل مدتی ترقی کا تخمینہ لگا رہا ہے، ابتدائی طور پر یہ بریکس کی معیشتوں سے شروع ہوا لیکن گزشتہ 10 سالوں سے انہوں نے ان تخمینوں کو بڑھا کر 70 ابھرتی ہوئی اور ترقی یافتہ معیشتوں کا احاطہ کیا ہے۔ تازہ ترین مقالہ 104 ممالک پر محیط ہے جس کے تخمینے 2075 تک ہیں۔ گولڈمین سیکس کے مطابق پاکستان کے مستقبل کے ستارے کی حیثیت کا اندازہ اس کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے لگایا جاتا ہے جو مصر اور نائیجیریا کے ساتھ مل کر اسے اگلے 50 سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شامل کر سکتا ہے۔ اس وقت تک کی تحقیق کے مطابق پاکستان کی حقیقی جی ڈی پی بڑھ کر 12.7 ٹریلین ڈالر اور اس کی فی کس جی ڈی پی 27,100 ڈالر ہو جائے گی۔ تاہم یہ تعداد چین، بھارت اور امریکا کے حجم کے ایک تہائی سے بھی کم ہونے کا امکان ہے۔ 2075 میں بھارت کی حقیقی جی ڈی پی 52.5 ٹریلین ڈالر اور فی کس جی ڈی پی 31,300 ڈالرمتوقع ہے۔ اپنے تخمینوں کے لیے اہم خطرات میں سے ماہرین اقتصادیات نے ماحولیاتی تباہی اور عوامی قوم پرستی کو نمایاں کیا ہے۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ جب تک عالمی سطح پر مربوط ردعمل کے ذریعے پائیدار ترقی کے راستے کو یقینی نہیں بنایا جاتا، موسمیاتی تبدیلی ان تخمینوں کو بہت زیادہ متاثر کر سکتی ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کے لیے جن کے جغرافیے خاص طور پر کمزور ہیں جبکہ بہت سے ممالک میں مقبول قوم پرستوں کے اقتدار میں آنے سے تحفظ پسندی میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر عالمگیریت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس طرح تمام ممالک میں آمدنی میں عدم مساوات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ عالمی نمو گزشتہ 10 سالوں میں اوسطاً 3.6 فیصد سالانہ سے کم ہو کر 3.2 فیصد ہو گئی ہے اور سست روی نسبتاً وسیع البنیاد رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ2024 اور 2029 کے درمیان عالمی نمو اوسطاً 2.8 فیصد رہے گی اور یہ بتدریج زوال پزیر ہو گی۔ جبکہ عالمی نمو کم ہو رہی ہے، ابھرتی ہوئی معیشتیں ترقی یافتہ منڈیوں کے مقابلے میں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں اور ان کے ساتھ ملنا جاری رکھیں گی۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ عالمی جی ڈی پی کا وزن اگلے 30 سالوں میں ایشیا کی طرف اور بھی زیادہ منتقل ہو جائے گا کیونکہ چین، امریکا، بھارت ، انڈونیشیا اور جرمنی کو جب ڈالر میں ماپا جائے تو سب سے بڑی معیشتوں کے لیگ ٹیبل میں سرفہرست ہیں جبکہ نائیجیریا، پاکستان اور مصر بھی بڑے ممالک میں شامل ہو سکتے ہیں۔