میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پرویز خٹک

پرویز خٹک

منتظم
جمعرات, ۱ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

کپتان کی بیس سال سے زائد عرصہ کی محنت ثمر بار ہونے کو ہے ۔ عمران خان نے سیاست میں جو کٹھن اور مشکل مراحل طے کیے ایسی جدوجہد شاید ہی ہمارے کسی سیاسی لیڈر یا جماعت نے کی ہو ۔ بلا شُبہ برسوں میں تشکیل پانے والی محبتیں اور نفرتیں اپنے نقوش آسانی سے مٹنے نہیں دیتیں ۔

مبصروں ، حکمت کاروں، دانشوروں اور تجزیہ نگاروںکی باتوں سے مجھے کوئی واسطہ نہیں ایک طویل سفر اور خیبر پختونخواہ کی سیاست کی پر خار وادی میں مصروف ِکاردرجنوں سربکف لیڈرو ں اور کارکنوں کی آراء جاننے اور دلائل سُننے کی ریاضت بتاتی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے جذبہ وجنوں کے اُوپرتنی ہوئی عمران خان کے عزم اور ارادے کی چھتری میں چھید ڈال کر اُن کی سیاسی کامیابی کو نا مہربان موسم کے حوالے کرنے کے لیے کئی جانب سے سازشیں ہو رہی ہیں ان منظم کاوشوں کا مرکز و محور عمران خان کے آبائی حلقے میانوالی کے ساتھ خیبر پختونخواہ کا صوبہ بھی ہے ۔ پارٹی کے اندر کے گروپوں کی سیاست پر کپتان کو حوصلے اور عزم سے قابو پانا ہوگا ۔ یہ طے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں خصوصاً نوجوانوں کی سیاسی جدوجہد اور سیاسی زندگی کی تمام رومانوی آروزئیں اور سنہرے خواب عمران خان کی ذات سے وابستہ ہیں ۔ لیکن کپتان کے ارد گرد موجود ایسے جتھوں کیا کیا جائے جو ہر لمحہ Electable کا راگ الاپ کر اپنے اپنے مفادات کی جوانی کا دلکشا موسم لوٹانے کی خواہشوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کررہے ہیں ۔

خیبر پختونخواہ کی سیاست میں پرویز خٹک نیا نام نہیں ہے ۔ ماضی کی صوبائی سیاست میںان کا نام جوڑتوڑ کا استعارہ رہا ہے یہی وجہ ہے ان کے مخالفین باالخصوص اے این پی والے یہ پھبتی کسنے سے باز نہیں آتے کہ تین پارٹیوں سے بے وفائی کرنے والے پرویز خٹک سے عمران خان نہ جانے کیسے وفا کی اُمید رکھے ہوئے ہیں ۔

ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح خیبر پختونخواہ کی سیاسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں ۔ یہاں کی سیاست ایک مرتبہ پھر ماضی کی طرح دوراہے پر کھڑی ہے ۔عمران خان کو اُسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے جیسا جنرل پرویز مشرف کے دور میں اُس وقت کی اپوزیشن بالخصوص ایم ایم اے کی قیادت کو درپیش تھا۔جنرل مشرف کے صدارتی انتخاب کو التواء میں ڈالنے کے لیے ’’کے پی کے ‘‘اسمبلی کو تحلیل کرنے کا کارڈ استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو مولانا فضل الرحمن اور ان کے ایک وزیر اعلیٰ اکرم خان دررانی نے اس قدر لیت و لعل سے کام لیا کہ بعض اراکین کو وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کا موقع مل گیا ، اسمبلی تحلیل نہ ہو سکی اور جنر ل پرویز مشرف وردی میں ہونے کے باوجود ایک مرتبہ پھر صدرپاکستان کے منصب کے لیے منتخب قرار پائے ۔

خیبر پختونخواہ 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کا بیس کیمپ بن چُکا ہے ۔ اس صوبے کے حوالے سے ایک روایت کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے کہ یہاں ایک مرتبہ اقتدار میں آنے والے والی پارٹی کو دوبارہ اقتدار نہیں ملتا ۔ لیکن اب غیر جانبدارانہ سروے رپورٹوں میں کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو دوسری باری ملنے کے امکانا ت خاصے قوی ہیں۔

صوبائی حکومت کی کارکردگی براہٰ راست عمران خان نے خود مانیٹر کی اس لیے نتائج حوصلہ افزاء رہے۔ لیکن پرویزخٹک کی بطور وزیر اعلیٰ سیاسی پالیسی پارٹی پالیٹکس سے زیادہ اپنے گروپ کا دائرہ کا ر پورے صوبے میں پھیلانے اور اُسے مستحکم بنیادوں پر دوام بخشنے کے نکتے پر مرکوز نظر آتی ہے۔

یہی وہ اسباب ہیں جن سے بنیادی اور نظریاتی لیڈروں میں خفگی اور مایوسی کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں ۔ سینیٹ کے ٹکٹوں کامرحلہ درپیش ہے ۔ اس سے بڑھ کر آئندہ کے عام انتخابات کے ٹکٹوں کے اُمیدواروں کی ایک طویل فہرست کو دیکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ میرٹ پر ٹکٹوں کی تقسیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔ البتہ اس صوبے میں دو طرح کے میرٹ ہیں ،ایک پرویز خٹک کے لیے دوسرا پارٹی کے لیے ۔ حکومت بنانے کے بعد سے پرویز خٹک نے دوسرے میرٹ پر کم ہی توجہ دی ہے ۔ صوبائی حکومت کے سربراہ کی جانب سے پی ٹی آئی کے بانی اور بنیادی ناراض رہنماؤں کو قریب لانے کی کوئی بھی کوشش سامنے نہیں آئی ۔ ان سب کی ناراضگیوں کا جائزہ لیا جائے تو اُس کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پارٹی کے بنیادی فلسفے سے انحراف کیا اور جن کے فیصلے پارٹی کے اُصولوں سے کافی دورتھے ۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ’’ کے پی کے ون‘‘ کے ٹکٹ کے معاملے کا جائزہ لیا جائے ۔ تو صورتحال سامنے آجاتی ہے۔اس حلقہ سے پہلے پہل سلیم جان کو ٹکٹ دیا گیا تھا۔ سلیم جان لالہ کے نام سے معروف یہ ضخیم شخصیت خان عبد الغفار خان المعروف باچا خان کے نواسے اور خان عبد الولی خان کے بھانجے ہیں جنہوں نے اپنے نانا کا سیاسی فلسفہ قربان کرکے کپتان کی آواز پر لبیک کہا تھا۔ 2013 ء کے عام انتخابات میں انہیں دیا گیا ٹکٹ واپس لے کر ضیاء اللہ آفریدی کو دے دیا گیا تھا ۔ ضیاء اللہ آفریدی کے معاملات سب کے سامنے ہیں ۔ سلیم جان لالہ کو سینیٹ کے لیے ٹکٹ بھی نہیں دیا گیا ۔ اسی طرح عائشہ گلالئی کا معاملہ ہے قومی اسمبلی کی خصوصی نشست کے لیے اُس کے ٹکٹ کی مضبوط بنیادوں پر مخالفت موجود تھی ۔ 2014 ء سے ہی اس کے بارے میں وہ تمام رپورٹیں منظر عام پر آنا شروع ہو گئی تھیں جو آج اُس کے خلاف چارج شیٹ میں شامل ہیں ۔

پرویز خٹک کا بطور وزیر اعلیٰ یہ فلسفہ یا پالیسی رہی ہے کہ وہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں سے زیادہ فنڈز دوسری پارٹی سے وابستہ افراد کو دیتے ہیں۔ اور پھر اس کا خاطر خواہ فائدہ وہ اس طرح اُٹھاتے ہیں کہ انہیںاپنی پارٹی میں شامل کر لیتے ہیں ۔ حال ہی میں انہوں نے’’ بنوں‘‘ میںمسلم لیگ ن کے ملک نصر خان اور پیپلز پارٹی کے پختون یار کو تحریک انصاف میں شامل کیا ہے۔اس سے پہلے پختون یار کے حوالے سے پچاس کروڑ سے زائد کی گرانٹ جبکہ ملک نصر خان کو کم و بیش نوکروڑ روپئے کی گرانٹیں مبینہ طور پر جاری کی گئی تھیں ۔ تاہم یہ طے ہے کہ ملک نصر خان این اے 26 بنوں سے اکرم خان دررانی کے خلاف ایک مضبوط اُمیدوار ہیں ۔ لیکن وہ صوبائی حلقہ پی کے 70 پر اپنے بھتیجے ملک عدنان خان کے لیے ٹکٹ بھی مانگتے ہیں۔

خیبر پختونخواہ کی پی ٹی آئی میں عمران خان کے لیے بے پناہ محبت ، وارفتگی اور وابستگی پائی جاتی ہے لیکن پرویز خٹک کے اقدامات سے کارکنوں میں سنسنی پھیلی ہوئی ہے ۔ اس امر پر ابھی تک حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سینیٹ کے گزشتہ عام انتخابات میں خیبر پختونخواہ اسمبلی میں 5 ووٹ رکھنے والی اے این پی کی ستارہ ایاز کیسے سینٹر منتخب ہو گئی تھیں۔ آزاد کشمیر کے ایک بڑے بیوروکریٹ کی اہلیہ کے حوالے سے بھی ایسے ہی سوالات ہیں۔ اس پارٹی میں کاروباری پارٹنرز کا ایک ایسا گروپ بھی پایا جاتا ہے جو اپنے اپنے دوستوں کو میدان میں اُتارنے کی تیاری کر رہا ہے ۔

عمران خان رشتہ داروں کی سیاست اور کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے پارٹی کو بنجر سمجھتے ہیں اور ایسی پریکٹس کی آبیاری کو روکنے کے لیے اپنی ذات کی حد تک انہوں نے اس پر سختی سے عمل بھی کیا ہے اور ہمیشہ قربانی دی ہے، لیکن ان کے ارد گرد موجود لوگوں کی ادائیں ان کے فلسفہ کو مجروح کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں