میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کو امریکی امداد بند کرنیکا بل

پاکستان کو امریکی امداد بند کرنیکا بل

منتظم
جمعرات, ۱ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

پاکستان کے لیے امریکی امداد مکمل طور پر بند کرنے کے بل پر قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے امریکی سینیٹ میں پاکستان کی امدا دمستقل بند کرنے کے لیے بل پیش کر دیا گیا ہے۔ سینیٹر رینڈ پال نے مجوزہ قانون سازی متعارف کرائی ہے جس کا مقصد وفاقی حکومت کو پاکستان کی 2 ارب ڈالر کی امداد روکنے کے ساتھ ساتھ امداد کی مستقل طور پر بندش ہے۔ امریکی سینیٹر کی جانب سے پیش کردہ اس بل کی مدد سے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ارب 28 کروڑ ڈالر اور امریکا کی ا سٹیٹ ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقیاتی فنڈز کے85 کروڑ20 لاکھ ڈالر امداد کے اعلان کو بھی روک دیا جائیگا۔ساتھ ہی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن کے کانگریس ممبر مارک سانفورڈ اور ہوائی سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ کے ممبر تلسی گبرڈ مشترکہ طور پر ایوان نمائندگان میں قانون سازی متعارف کرائیں گے۔پاکستان مخالف جذبات رکھنے والے بھارت نواز سینیٹر رینڈ پال نے کہا تھا کہ وہ بل اس لیے ایوان میں لائے ہیں کیونکہ انہیں یہ یقین نہیں ہے کہ پاکستان امریکا کا اتحادی ہے اور ہم ایک ا یسے ملک کی مدد کررہے ہیں جہاں امریکا کی موت کے نعرے لگتے ہوں اور ہمارے پرچم جلائے جاتے ہوں۔ ہمیں اس رقم کو واپس اپنے ملک لانا چاہیے اور اس کی مدد سے اپنے انفرا سٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہیے نہ کہ یہ رقم ایسے ملک کو دی جائے جہاں عیسائیوں پر ظلم کیاجاتاہو اورجو ملک اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں مدد فراہم کرنیوالے ڈاکٹر کو قید کرتو ہو۔

حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو ایک مستحکم خود انحصار پاکستان کے لیے یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ جب تک امداد نہیں بند ہوگی اس وقت تک امداد پر انحصار بھی رہے گا۔ اس بل کی مدد سے امریکی دفتر خارجہ اور عالمی ترقیاتی فنڈ کا ادارہ مجموعی طورپر پاکستان کو کم و بیش سوا دو ارب ڈالر کے قریب کی امدادی رقم روک لے گا ۔ بظاہر یہ ایک بڑی رقم معلوم ہوتی ہے اور یہ سوچا جاسکتاہے کہ اس رقم کی محرومی کی صورت میں پاکستان کو اپنے بہت سے ترقیاتی اور انتظامی منصوبوں میں کٹوتی کرناپڑے گی یا انھیں ختم کرنا ہوگا لیکن اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ س میں سے بہت بڑی رقم امریکی خود ہی ہڑپ کرجاتے ہیں ، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی گزشتہ روز ایک انٹرویو میں کہ چکے ہیں کہ امریکا پاکستان کو امداد دے ہی نہیں رہا ہے تو کٹوتی یا بندش کا کیا سوال۔ وزیراعظم پاکستان کی یہ بات کوئی غلط نہیں ہے بلکہ انھوں نے ایک حقیقت کا اظہار کیا ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا پاکستان کو مختلف حوالوں سے جو رقم دیتا ہے وہ یا تو کولیشن سپورٹ فنڈ ہے یا مشترکہ دفاعی اخراجات ہیں۔ بعض اخراجات تو پاکستانی حکام پہلے کر ڈالتے ہیں اور جب امریکا سے طلب کیے جاتے ہیں تو امریکی اس کی ادائیگی مؤخر کردیتے ہیں۔ باالفاظ دیگر لٹکادیتے ہیں۔ امریکیوں نے پاکستان کو گزشتہ 15 سے 20 برس کے دوران جو 33 ارب ڈالر دیے ہیں یا جن کا دعویٰ کیا جارہاہے ان میں سے تو بہت سے ڈالر امریکی اور پاکستانی حکام مل کر ادھر ادھر کرچکے ہیںیا وہ اس انداز میں فراہم کی جاتی ہے کہ وہ ہمارے لیے بے معنی ہوجاتی ہے۔ امریکی دھمکی کے جواب میں وزیراعظم کایہ کہنا کہ پاکستان کے ساڑھے 6ہزار جوانوں نے قربانی دی ہے اس اعتبار سے درست نہیں ہے کہ پاکستانی فوج کے جوانوں نے ڈالروں کے لیے قربانی نہیں دی تھی بلکہ انھوں نے پاس سرزمین کو دہشت گردی سے پاک رکھنے اور پاکستانی عوام کی جان ومال کے تحفظ کے لیے جانیں قربان کی تھیں اورقربانی کایہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔وزیراعظم نے بجا طورپر امریکی حکمرانوں کو متنبہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی سوچ نہ بدلی تو افغانستان امریکا کے لیے ویتنام ثابت ہوگا۔لیکن اس حوالے سے وزیراعظم کو یہ فراموش نہیں کرناچاہئے کہ افغانستان امریکا کے لیے ویتنام بن گیا جو کہ صاف نظر آرہاہے تو وہ بھاگتے ہوئے افغانستان کے پڑوسی کے ساتھ وہی کرسکتاہے جواس نے ویتنام کے پڑوسی کمبوڈیا کے ساتھ کیا تھا۔ سارے بم ساری تباہی اس کے حصے میں آئی تھی۔ اب افغانستان میں تباہی کے بعد کھلم کھلا اعتراف شکست کے بعد امریکا اپنے عوام کو یہی لالی پاپ دیتا ہے کہ وہ بھرپور کامیابی حاصل کرکے آیا ہے۔ 58 ہزار لاشیں تو ویتنام میں رہ جاتی ہیں کچھ اعلیٰ فوجی افسران پریس کانفرنس کرتے ہیں کچھ بڑے اخبارات امریکا میں بھی دفتر خارجہ کے کنٹرول میں ہیں ان کی مدد سے قوم کو بتایا جاتا ہے کہ امریکی فوج بیرون ملک امریکی عوام کے دفاع کا کارنامہ انجام دے کر آئی ہے۔ ویتنام کے معاملے میں یہی ہوا،، عراق کے معاملے میں بھی یہی ہوا اور افغانستان کے معاملے میں بھی۔ امریکی حکمران اپنے عوام کے ٹیکسوں کی رقم پر بہت بڑے بڑے منصوبے کھڑے کرکے اربوں کھربوں ڈالر کا بارود دنیا بھر میں پھینک رہے ہیں اس کا حساب امریکی عوام کو لینا چاہئے۔ پاکستان کو تو صرف اتنا کرنا ہے کہ اب اگر امریکا پاکستان کے ساتھ تعاون ختم کرتا ہے تو اسے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ امریکا پاکستان کو کمبوڈیا بنانے کی جرات نہ کرسکے۔

جہاں تک پاکستان کے لیے امریکی امداد کا تعلق ہے کہ اگر پاکستان امریکا کو افغانستان کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کے بدلے اپنی خدمات اور امریکا کو فراہم کی جانے والی ان سہولتوں کا معاوضہ طلب کرلیتا جو خدمات اور سہولتیںامریکا کو اب بھی بلامعاوضہ فراہم کی جارہی ہیں اور‘ یہ سب کسی معاہدے کے تحت ہوتا تو امریکا کو ان خدمات اورسہولتوں کے عوض پاکستان اب تک اتنی رقم تو تو وصول کرہی سکتا تھا جتنا اب تک اسے 120‘ ارب ڈالر مالیت کے انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں نقصان ہوچکا ہے۔امریکا نے معاوضے کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے معاہدے کی عدم موجودگی میں پاکستان کی سروسز اور سرزمین و تنصیبات استعمال کرنے کا خود سے معاوضہ طے کیا جو جنگ کی ابتدا میں باقاعدگی سے ادا کیا جاتا رہا لیکن اس دوران امریکا کا بھارت سے رومانس شروع ہوا تو پاکستان پر بداعتمادی کا اظہار‘ ڈومور کے تقاضوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ پاکستان نے ڈومور کے تقاضے بھی ممکنہ حد تک پورے کیے مگر بھارت کی امریکا سے قربت نے پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ بداعتمادی بھارت کی پیدا کردہ ہے جو امریکا کی طرف سے الزامات جارحیت کی دھمکیوں تک وسیع ہوگئی۔ امریکا جنگ میں سہولت فراہم کرنے کا خود سے طے کردہ جو معاوضہ پاکستان کو ادا کرتا رہا ہے‘ جس کی کل مالیت 16 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں‘ اس معاوضے (سپورٹ فنڈ) کو اس نے امداد کا نام دیا ہوا ہے۔ امریکا کی بداعتمادی کے بعد کبھی ’’امداد‘‘ بند کردی جاتی تھی کبھی موخر اور کبھی کٹوتی کرکے ادا کی جاتی تھی۔ اب مکمل طور پر بند کی جارہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سینیٹر رینڈپال پاکستان کی امداد بند کرنے کے ماورائے عقل جواز پیش کررہے ہیں کہ پاکستان میں امریکا کو مردہ باد کہا جاتا ہے‘ امریکا کو تو امریکا میں بھی لوگ مردہ باد کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں حکومتی سطح پر امریکا کو مردہ باد کہا جاتا ہے؟ عیسائیوں پر ظلم کی بات بھی پال نے کی ہے۔ کیابھارت میں مسیحیوں پر منظم طریقے سے حکومت کی چھتری تلے مظالم نہیں ہورہے ہیں کیا رینڈ پال اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ بھارت میںنہ صرف عیسائی بستیوں اوگرجاگھروں کو آگ لگائی جاتی ہ ے بلکہ مسیحیوں کو زندہ بھی جلا دیا جاتا ہے۔ شکیل آفریدی کی قید پر امریکی رکن کانگریس بہت مشتعل نظر آت ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکا میں کسی ایسے شخص کو کھلی چھوٹ دی جاسکتی ہے جس نے امریکی مفادات کے خلاف کام کیاہو، شکیل آفریدی نے امریکی مفادات کی خاطر اپنے وطن سے غداری کی ہے جس کی وہ سزا سے اسے بھگتناہوگی اور وہ اسے بھگت رہا ہے۔امریکی رکن کانگریس امریکی امداد کی بندش کی دھمکی دے کر کسی ملک دشمن کو سزا سے بچانے کاخواب دیکھنا چھوڑ دیں تو زیادہ اچھا ہوگا اگر امریکی رکن کانگریس کو امریکا کو برا بھلا کہنے پر پاکستان سے شکایت ہے توانھیں ڈیووس میں ٹرمپ کو جو کچھ کہا گیا‘ اس پر بھی اسی طرح کی کارروائی کے لیے قانون سازی کی بات کرنی چاہئے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی اقتصادی فورم میں فقط 15 منٹ کا خطاب کیا اور میڈیا پر تنقید کے جواب میں عالمی کاروباری شخصیات نے انہیں خوب‘ طنزیہ‘ القابات سے نوازا۔ ٹرمپ کی جانب سے تجارت پر دیئے جانیوالے خطاب کے بعد سوال و جواب کے سیشن میں عالمی تجارتی فورم کے شرکا نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ‘غلیظ’، ‘مطلبی’، ‘شیطان’ اور ‘جعلی’ پریس جیسے القابات سے نوازا۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں موجودگی کے لیے امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت شاید کبھی ختم نہ ہو۔ امریکی رہنمائوں کوپاکستان پر شکنجہ کسنے اوراس طرح پاکستان کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی خام خیالی سے باہر آناچاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ‘ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پاکستان نے اپنے رویے پر نظرثانی کی تو امریکا کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات کاتعلق ہے تو ہمارے خیال میں اس حوالے سے پاکستان میںافغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال کا یہکہنا بالکل درست اورحقیقت پسنداندانہ ہے کہ دہشت گرد افغان شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دہشت گردی کا خطرہ افغانستان ہی نہیں پاکستان کو بھی ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں افغانستان کے بعض علاقوں میں طالبان کا بھی کنٹرول ہے۔ ہمیںباہمی ہم آہنگی سے دہشت گردی کے ناسور سے چھٹکارا حاصل کرناہوگا۔ پاکستان اور افغانستان تعاون کریں تو دونوں ملک دہشتگردی پر قابو پا سکتے ہیں۔عمرزاخیلوال بالکل درست کہتے ہیں پاکستان افغانستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو ہمہ وقت تیار رہا ہے‘ اب بھی ہے۔ معاملات افغان حکومت کے بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے کے باعث بگڑے ہیں۔ پاکستان پہلے بھی طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرچکا ہے۔ ہم اب بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کھلے دل ودماغ کے ساتھ حقیقت پسندی کو سامنے رکھ کر باہمی تعاون کے معاہدے کیے جائیں اور ان پر پوری نیک نیتی سے عمل کو یقینی بنانا چاہئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں