زینب کیس اور جعلی انکاؤنٹرز…قوم کی نظریں عدلیہ پر مرکوز
شیئر کریں
مولانا محمدجہان یعقوب
ہم (گزشتہ سے پوستہ)
پیداہوئے تواس ڈکٹیٹر کے دور میں ،جس نے خود اپنی کتاب میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کودشمن کے حوالے کرنے کا اعتراف کیا،جس نے مجاہدین کوپکڑ پکڑ کردشمن کے حوالے کیا اورڈالرکمائے۔ہم پید اہوئے توجعلی انکانٹرزکی اس اندھیرنگری میں،جس میں کسی بھی باعزت شہری کواس کے گھر سے گرفتار کرکے پیسوں کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے ،اور پیسے نہ ملنے کی صورت میں اوربسا اوقات تو پیسے ملنے کے باوجودبھی’’ راز‘‘ کھلنے کے خوف سے اسے دہشت گرد قرار دے کر مبینہ مقابلے میںقتل کردیا جاتا ہے،توکبھی سالوں اور مہینوں سے جیلوں میں پڑے انصاف کے منتظر قیدیوں کوجعلی مقابلوں میں مار دیا جاتا ہے،ان کے ہاتھ پاؤں پربندھی رسیاں ان کی بے گناہی کی ان کہی کہانیاں سنارہی ہوتی ہیں،اس کے باوجود وہ دوشی اور دہشت گرد اس لیے ٹھہرتے ہیں ،کہ یہ جس پولیس افسر کا کارنامہ ہے،وہ حکومت کی نظر میں قابل اعتماد ،باعث فخر ،قوم کا سرمایہ اور فرض شناس افسرہوتا ہے۔
نسیم اللہ عرف نقیب اللہ محسود کی بہیمانہ شہادت کی صورت میں راؤانوار اور اس کے ڈیٹھ اسکواڈ کاجوبھیانک چہرہ سامنے آیا ہے،اس سے امید پیدا ہوچلی ہے کہ ان شاء اللہ!ظالموں کا وقت حساب قریب ہے۔جن کے سہاگ اجڑے ان سہاگنوں کی آہیں رنگ لارہی ہیں،جن کے جگر گرشے خاک وخون میں تڑپائے گئے ان بوڑھے والدین کی سسکیاں عرش کا سینہ چیر کرقبولیت کے مراحل طے کرچکی ہیں،جن بچوں کے والد،جن بہنوں کے بھائی،جن گھروں کے سہارے ،جن کی امیدوں کے چراغ گل کیے گئے،ان کے نالے اب اپنا اثر دکھارہے ہیں۔وقت کے فرعون کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی۔اللہ کرے،اس واقعے کی ایسی شفاف تحقیق وتفتیش ہو،کہ آیندہ کسی وردی میں ملبوس سفاک درندے کوایسی جرء ات نہ ہوسکے۔اب تک کی خبریں خوش کن نہیں ہیں ،راؤانوار اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ کی گرفتاری عمل میں آسکی ہے اور نہ ہی ان کی ملک میں موجودگی یا عدم موجودگی وفرار کے حوالے سے کوئی تسلی بخش رپورٹ سامنے آسکی ہے،اس کے باوجود عوام کی نظریں عدلیہ پر ہیں ،کہ ان شاء اللہ !ظالم درندے قانون کے شکنجے سے نہ بچ سکیں گے۔یہ سوال البتہ ضرور کیا جارہا ہے کہ کسی مطلوب ملزم کو گرفتار کرنے اور اس کا سراغ لگانے کے لیے راؤ انوار جو فارمولہ استعمال کرتا تھا،یعنی اس کے اہل خانہ کو ہراساں کرنا،عزیز رزشتے داروں کی زندگی اجیرن کرنا،اندھا دھند اس کے جاننے پہچاننے والوں کو گرفتار کرنا،یہ راؤ فارمولہ راؤ جی کی گرفتاری کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ان کے پشتی بان بھی سب کو معلوم ہیں ،آخر سندھ حکومت ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈال رہی ہے؟
فیک انکاؤنٹرزصرف سندھ یا کراچی کا مسئلہ نہیں،بلکہ پورے ملک کامسئلہ ہیں اور واقفانِ حال کاتو یہ بھی کہنا ہے کہ خادم ِاعلی پنجاب ،جواب خادم ِاعلی پاکستان بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔اس سلسلۂ نامسعود کے موجدوں میں سے ہیں۔پنجاب کی سرزمین کے چپے چپنے میں ایسے فیک انکاؤنٹرزکی کہانیاں دفن ہیں،جن میں سے ہر کہانی ماڈل ٹاؤن واقعے سے زیادہ بھیانک اور دل دہلادینے والی ہے۔کیا کبھی ان کا بھی حساب ہوگا؟حساب توان مذہبی بازی گروں کا بھی ہونا چاہیے،جنھیں اچانک ملک کاآئین مکمل غیراسلامی نظرآتا ہے،وہ اس نظام کوتلپٹ کرنے کے لیے روڈوں پرآتے ہیں،ایک ہفتے کی ڈیڈلائن دیتے ہیں اور پھراچانک’’ سب اچھا ‘‘کی گردان کرنے لگتے ہیں۔خادم حسین رضوی پرالزامات لگانے والے کیا پیرآف سیال سے پوچھنا اور یہ عقدہ کھولنا پسند کریں گے کہ غیرشرعی دستور کو’’مشرف بہ اسلام ‘‘کرنے کاکتنا نذرانہ وصول کیا گیا!
ہم نے دیکھا تویہ زمانہ،جس میں حکم ران خودمعصوموں کے قاتل درندوں کو بچانے کے لیے تمام حکومتی مشینری کوحرکت میں لاتے ہیں،ملک احمد سعیدخان کی سیاسی وابستگی کی وجہ سے اس کے تمام سیاہ کارناموں کے باوجود اسے کلین چٹ فراہم کرتے ہیں،معصوم زینب کے ورثا بار بار درندے کوپکڑ کرحوالۂ پولیس کرتے ہیں اور اسے بہانے بہانے سے چھوڑ دیاجاتا ہے۔جب پانی سر سے گذرتا محسوس ہوتا ہے ،توورثاکی کوششوں سے پکڑے جانے والے مجرم کی گرفتاری کا کارنامہ اپنے کھاتے میں ڈال کرپولیس ٹیم کے لیے لاکھوں کے انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے،پریس کانفرنس میں اس ڈر سے معصوم شہیدہ کے والد کا مائک بند کردیا جاتا ہے،کہ کہیں حقائق سے پردہ اٹھ گیا ،تواس ’’فتحِ مبین‘‘ کاکریڈٹ لینا مشکل نہ ہوجائے!
قاتل درندے کو بچانے کے لیے حکومتی دباؤکاسپریم کورٹ کے ان ریمارکس سے اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں، کہ کچھ نام آخر وقت تک صیغہ ٔراز میں رکھنے پرمجبور ہیں۔قاتل کو بچانے کے لیے کبھی اسے ذہنی مریض باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے،توکبھی یہ تمام سیاہ کاری اس کے وجود میں پرورش پانے والے مزعومہ’’ جن ‘‘کی
کارستانی قرار دی جاتی ہے،مجرم کی رہائی کے راستے ہم ورا کرنے کے لیے اسے ایک عام سا مجرم بناکر سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے،جب کہ باخبر صحافی واینکرز کا کہنا ہے کہ عمران علی عام جنسی درندہ نہیں،پورنوگرافی انڈسٹری کا ممبر ہے۔یہ بھی مقام ِحیرت ہے کہ سپریم کورٹ کواس کاایک بھی بینک اکاؤنٹ نہیں ملتا،جب کہ باخبر ذرایع اس کے سیکڑوں اکاؤنٹس اور اکاؤنٹس میں لاکھوں ڈالرزہونے کاانکشاف کرتے ہیں۔
دونوں مقدموں میںمنصف نے زنجیر عدل ہلاتودی ہے،لیکن سسٹم کے سقم کودیکھتے ہوئے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا،کہ اس سسٹم میں بڑے سے بڑے مجرم کا بچ نکلنا ایک عام سی بات ہے۔اگر عمران علی اور اس کے سرپرستوں نیز راؤ انواراوراس کی ٹیم کو بھی اسی طرح کا کوئی ’محفوظ راستا ‘دیا گیا ،توخطرہ ہے کہ قوم کا جس طرح پولیس کے نظام سے اعتماد ختم ہوکر رہ گیاہے،کہیں عدالتوں سے بھی اس کا اعتماد متزلزل نہ ہوجائے،شاہ رخ جتوئی کی بریت کے فیصلے سے قوم پہلے ہی سکتے کی کیفیت میں ہے۔عدالت کواگر عوامی اعتماد اور اپنا وقار برقرار رکھنا ہے ،توان دونوں کیسوںکو اسی طرح، کسی قسم کے اندرونی بیرونی دباؤسے آزاد ہوکر،جلد سے جلدمنطقی انجام تک پہنچانا ہوگا،جس طرح میاں نواز شریف کے کیس کو پہنچایا گیاتھا۔ (ختم شد)