میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
امریکی کانگریس میں پاکستان کے خلاف بل

امریکی کانگریس میں پاکستان کے خلاف بل

منتظم
جمعرات, ۱ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

عبدالماجد قریشی
یہ درست ہے کہ امریکا کی کانگریس میں بہت سے ممبران پاکستان کی نسبت بھارت سے زیادہ ہمدری رکھتے ہیں۔اسی لیے امریکا کہ ایوان زیریں میں ایک ایسے ممبر نے پاکستان کے خلاف بل پیش کیا ہے جو پاکستانی مخالفت کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس بل میں پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والاملک قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں کہا گیاہے کہ پاکستان مبینہ طور پر دہشت گردی کا مددگار ہے جس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بل امریکی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے شاید منظور نہ بھی ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ نئی انتظامیہ پاکستان پر اپنا سفارتی دباؤ جاری رکھے گی۔ لاکھ شکایتوں کے باوجود امریکا کو افغانستان میں استحکام کے لیے پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ جغرافیائی حقیقتوں کی وجہ سے پاکستان کو مکمل طور پر ایک طرف کرکے امریکا افغانستان میں اپنے فوجی اہداف مکمل نہیں کرسکتا۔

حال ہی میں امریکی کانگریس میں بھارت نواز اراکین کی بدولت امریکی سینیٹ میں پاکستان میں علیحدگی کی تحریکوں کو سپورٹ کرنے مطالبہ سامنے آ یا ہے۔ بلوچستان کے بعد اندرون سندھ اور کراچی میں بھی علیحدگی کی تحریکیں شروع کروانے کی خاطر فنڈز مختص کرنے کا کہا جانے لگا ہے۔ پاکستان سے تعلقات میں خرابی آنے کے بعد امریکی پارلیمنٹ میں موجود پاکستان مخالف عناصر کی سازشوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردوں کی حمائت میں قراردادا مریکی کانگریس میں لانے کی کوشش کرنے والے دو ارکان کانگریس نے اب اندرون سندھ اور کراچی کے بارے میں سازشیں شروع کر دی ہیں۔

امریکی ارکان کانگریس ڈاناروہرا باشیر اوربراڈ شرمین نے امریکی کانگریس کے ہونے والے گزشتہ اجلاس میں پاکستان کے خلاف لابنگ کی اور پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا۔ اپنی گفتگو میںبراڈ شرمین نے کہا کہ بلوچستان کے بعد پاکستان کی جانب سے سندھ میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور جبری لاپتہ کیے جانے کے واقعات ہو رہے ہیں۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ ایسے واقعات کی مذمت کرے ۔ڈانا روہرا باشیرنے الزام لگایا کہ پاکستان نے سابق مشرقی پاکستان میں بھی انسانی حقوق کی پامالی کی تھی جس کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا۔ لہذا اب امریکا کو چاہیے کہ وہ بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی کی تحریکوں کی فنڈنگ کرے اور ان کا ساتھ دے۔

اس کے ساتھ ساتھ دوسرے رکن کانگریس براڈ شرمین نے بھی اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کو بنگلہ دیش کی طرح پاکستان سے الگ کر دینا چاہیے۔ ان کا احمقانہ تبصرہ تھا کہ پاکستان پر پنجابی اور پشتونوں کی حکومت ہے۔ ہر ادارہ اور حکومت میں یہی لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ فوج اور آئی ایس آئی کے مقابلہ میں علیحدگی پسندوں کی مدد کی جائے۔

براڈ شرمین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکا کو بلوچوں اور سندھیوں کی مدد کرنی چاہئے۔ جنہیں آئی ایس آئی اور افواج پاکستان ستا رہی ہیں۔ اگست 2017ء میں کانگریس مین براڈ شیرمین نے قائم مقام سیکرٹری برائے جنوبی و شمالی ایشیائی امور ایلیس جی ویلز اور پاکستان میں امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو خط لکھا کہ جس میں سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اس مہم میں دیگر نمائندے باربرا، ٹرینٹ فرانکس، کارولین مالونے، ایلینور ہولمس نورٹن، ڈانا روہرباشیر اور ایڈم شیف کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اس خط نے بہت سارے تحفظات اٹھا دیئے جس میں اشارہ دیا گیا کہ جبری گمشدگیاں ہو رہی ہیں۔ مذہبی انتہا پسندوں کے حملے ہو رہے ہیں اور جبراً مذہبی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ خط میں وزارت خارجہ پر زور دیا گیا کہ وہ حکومت پاکستان کے ساتھ انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر رکھے۔

امریکا میں ایک لابی بھارت کی حمایت کرتی ہے۔ اس لابی کی طرف سے اس طرح کے کام کیے جاتے ہیں۔ اِس پر زیادہ فکر مند ہونے کے ضرورت نہیں۔ پاکستان کے پاس بہت سارے کارڈز ہیں، جن کو وہ دانائی سے کھیل سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی جغرافیائی حیثیت کو ہی اچھی طرح استعمال کریں تو یہ طریقہ ہمارے لیے بڑا مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

امریکی نظامِ قانون سازی میں ایک رکن پارلیمان بہت آزادانہ انداز میں کام کرتا ہے۔ اْس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ہر مسئلے پر پارٹی لائن کی پیروی کرے۔ اِسی لیے کئی اراکین مختلف لابی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ ان دونوں اراکینِ کانگریس کے بارے میں بھی یہ ہی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بھارتی لابی کے قریب ہیں۔

اس طرح کی قراردادیں ایک چھوٹی سی اقلیت کی طرف سے پیش کی گئی ہیں جن کی زیادہ اہمیت نہیں لیکن یہ پاکستان اور اْس کے اداروں کو بدنام کرنے کی کاوش ضرور ہے۔ کچھ عرصہ سے بلوچستان میں امریکی حکمت سازوں کی طرف سے گریٹ گیم کے تحت جاری کیے گئے نقشوں پر پوری طرح عملدرآمد ہو رہا ہے۔ صوبہ بلوچستان کو ایرانی سیستان بلوچستان ریجن میں ضم کرکے گریٹر بلوچستان کے طور پر شائع کیا گیا ہے لیکن بلوچستان میں صورتحال کو سیاسی سطح پر بھرپور انداز میں سنبھالا دیا گیا ہے۔ منتخب حکومت کام کررہی ہے۔ ٹارگٹ کلنگ میں نمایاں کمی آئی ہے۔ سورش بھی بہت کم ہو چکی ہے۔ بلوچستان کے عوام اپنی حب الوطنی کے لیے جانے پہچانے جاتے ہیں اور علیحدگی پسندوں کی فسادی سرگرمیوں سے کبھی بھٹکائے نہیں جا سکیں گے۔

آدھا درجن امریکی اراکین نمائندگان کی طرف سے یہ تمام تر اقدامات پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور قابل مذمت ہیں۔ اس طرح کی پاکستان مخالف سازشیں اور پراپیگنڈا قراردادیں ایسے امریکی عناصر کے دہرے معیار کا ثبوت ہیں جنہیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی اور بھارت میں 22 سے زائد آزادی کی تحریکیں اور اقلیتوں کے ساتھ بدترین مظالم نظر نہیں آتے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں