میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تنقید نہیںخود احتسابی کی ضرورت

تنقید نہیںخود احتسابی کی ضرورت

منتظم
جمعرات, ۱ فروری ۲۰۱۸

شیئر کریں

حمید اللہ بھٹی
جڑانوالہ میں نواز شریف کا اچھا جلسہ ہوا ہے مگرتمام حکمرانوں کے ہی ہمیشہ اچھے جلسے ہوتے ہیں کیونکہ آفیسر کوشش کرتے ہیں اگر عام آدمی جلسوں میں نہیں آتے تو سرکار کے ملازمین کولاکر جلسہ کی رونق بڑھا لیںاِس کوشش میں تقریباََ سبھی آفیسرکو کامیابی مل جاتی ہے وجہ یہ ہے کہ دل لگا کر محنت کی جاتی ہے اِ س طرح تعلقات بنانے اوراہمیت جتانے کے بعد اچھی پوسٹنگ حاصل کرنے کا مرحلہ سہل ہوجاتا ہے جلسہ کے دن محکموں میں باقاعدہ حاضری لگتی ہے چاہے سارا سال کوئی غیر حاضر رہے مگر جلسہ والے دن سوفیصد حاضری یقینی بنائی جاتی ہے محکمے ٹرانسپورٹ سے لے کر کھانے پینے کا سامان بھی فراہم کرتے ہیں اگر ضلع کونسل ، میونسپل کارپوریشن اور میونسپل کمیٹی میںحکومتی جماعت کے بندے سربراہ ہوں تو حاضری کے لحاظ سے جلسہ کاتاریخ ساز ہو نا یقینی ہے، لیکن ایسے جلسوں کو مقبولیت نہیں سمجھا جا سکتا۔ 88 ء سے ملک کی سیاست میں ایسا کھیل جاری ہے نواز شریف نے جب محمد خاں جونیجو کو جماعت کی صدارت سے ہٹا کر سربر اہی سنبھالی تو ہمرکاب رفقا سے استدعا کی کہ ملک میں میرے جلسے کرائے جائیں تاکہ لوگ مجھے مقبول رہنما سمجھیں اور جلسوں میں مجھے مسلم لیگ کا صدر اور وزیرِ اعظم کہا جائے جو بھی بڑا جلسہ کرائے گا اُسے بلدیات کی وزارت سے زیادہ فنڈز ملیں گے یادرہے اُن دنوں ترقیاتی گرانٹس وزیرِ بلدیات جاری کرتے جنھیں اے ڈی ایل جی کے زریعے خرچ کیا جاتا تھا ۔

جلسوں کی فرمائش پر ایوانوںمیں جنم لینے والی مسلم لیگ کے ممبرانِ اسمبلی میں مقابلے بازی کے ماحول نے جنم لیا سبھی کی آرزو بڑا جلسہ کرانا ٹھہری کیونکہ فنڈز ملنے کی صورت میں خُرد بُرد کے مواقع ملنا یقینی تھا ابتدا میں شہروں میں جلسے کرانے کی تجویز منظو ر ہوئی کیونکہ خدشات تھے شاید دیہات میں جلسے شرکا کے لحاظ سے کامیاب نہ ہوں یہ بھی طے ہوا کہ شہر کے مصروف علاقوں میں نواز شریف کاخطاب کرایا جائے تاکہ لوگوں کی کم تعداد کو ٹریفک روک کر زیادہ ظاہر کیا جا سکے اس فیصلے کی روشنی میں فیصل آباد،راولپنڈی ،سرگودہا اورلاہور میں نواز شریف نے آنے کا پروگرام بنا ہر جلسے میںخطاب کے دوران جنرل ضیا الحق کا مشن پورا کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا کیونکہ مسلم لیگی کارکنوں کے ساتھ ضیا فونڈیشن کے لوگ بھی جلسہ گاہ میں موجود ہوتے پھر بھی جلسو ں میں حاضری تکلیف دہ حد تک کم رہتی موچی دروازے جلسہ سے نواز شریف اِتنے خفا ہوئے کہ جماعت کی میٹنگ بُلا ئی جس میں جلسوں کی رونق بڑھانے کے لیے غور وفکر ہوالاہور والے بضد تھے موچی دروازے جلسے میں لاکھوں لوگ شریک تھے تب اچانک نوازشریف اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور جواب دیا چارہزار کرسیاں لگانے کا ہم نے خرچہ دیا لاکھوں لوگ آپ نے کہاں بٹھائے؟ اگر آپ اخباری خبر کی روشنی میں دعویٰ کر رہے ہیں تو مت بھولیں اخباری خبر مجید نظامی سے ہم نے اپنے تعلقات کی بنا پر شائع کرائی ہے مگر میزبان بضد تھے جناب ہم نے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمند ر آپ کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب دیکھا۔ ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی بات پر طنزیہ ہنسی سے جواب دیا میرا خیال ہے آپ (سمندر)بحرہ عرب کی بات کررہے ہیں میں بے نظیر بھٹو کی طرح کے بڑے عوامی جلسوں کی بات کر رہا ہوں یہ اجلاس ماڈل ٹائون میں ہوا۔جس میں شہباز شریف اور عباس شریف سمیت میاں شریف بھی شریک تھے ایک مقرر نے سرکاری ملازمین کو جلسوں میں لانے کی تجویز دی جس کی اتفاقِ رائے سے منظوری دی گئی ۔غربت کم کرنے کے نام پر عہدیداروں کی مالی امداد کا سلسلہ شروع کرنے کا وعدہ ہوا ،بے روزگاری کے خاتمے کے نام پر کارکنوں کو ملازمتیں دینے کی نوید سنائی ،خطاب میںہندوستان کو دشمن نمبر ایک کہنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وزیر اعلٰی سے لے کر وزیرِ اعظم بننے کے بعد سوچ میں حیران کُن تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب نواز شریف ہندوستان پر فریفتہ ہیں کل،بھوشن جیسے جاسوس کی گرفتاری پر بھی لب کشائی نہیں کرتے ۔ہندوستانی صنعتکار سجن جندال کو ویزے کے بغیر مری لے جاتے ہیں اور وزارتِ عظمٰی کی مصروفیت پر سجن جندال کی دوستی کوفوقیت دیتے ہیں۔

نااہلی کے بعد اندازِ گفتگو یکسربدل گیا ہے وہ عدلیہ پر برسنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے جڑانوالہ جلسہ میں عوام کے حق میں فیصلے کرنے والی نڈر اور بے باک عدلیہ لانے کاعزم ظاہر کیا گیاہے تاکہ دادا کے مقدمے پوتا نہ بُھگتے۔مجھے جانے کیوں ماضی کے چندواقعات یاد آنے لگے ہیں جب ہم عدالتوں سے اپنے حق میں فیصلے کرانے کے لیے ماڈل ٹائون جایا کرتے تھے اور مراد پالیتے ۔ شہبازشریف نے اپنے مخالفین کو عدالتوں سے سزائیں دلانے میں خاصی شہرت حاصل کی اِس حوالے سے ملک قیوم سے اُن کے مطالبات سے زمانہ شناسا ہے غلام اسحاق خان کی طرف سے اسمبلی توڑنے پر جسٹس نسیم حسن شاہ نے صدر کے فیصلے کو بد نیتی سے تعبیر کرتے ہوئے نواز شریف حکومت بحال کردی حالانکہ بے نظیر بھٹو حکومت برخواستگی پر بحالی کا فیصلہ دینے سے اجتناب کیا گیا جواز الیکشن شیڈول جاری ہونے کو بنایا گیا یہ تفریق ہر صاحبِ نظر نے محسوس کی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو اقتدار سے بے دخل کرانے کی خاطر جتن ہوئے اورہر حربہ اختیار کیا گیا پی پی حکومت گرانے کے لیے نواز شریف نے کبھی بے قراری کو چھپانے کی کوشش نہ کی ۔ ججزبحالی تحریک میں حصہ لینے کی بنا پر جیسے وہ ایسے فیصلے لینا اپنا استحقاق سمجھتے ہوں ۔ مگر استحقاق کی بجائے فیصلے غیر جانبداری سے ہوتے رہے جس پر اُنھیں حیرانگی ہے سچی بات یہ ہے کہ اُنھیں نڈر کی بجائے ماتحت عدلیہ کی تمنا ہے جو فیصلوں سے قبل اُن سے مشاورت کرے اور سزائیں صرف اُن کے مخالفین کو دے اگر دادا کے مقدمے پوتے کو بُھگتنے کا سلسلہ روکنے میں مخلص ہوتے تو تین بار وزیرِ اعظم رہنے کے دوران قانونی سقم دور کر سکتے تھے مگر بہتری لانے کی بجائے اقتدار پرستی کی روش اپنائے رکھی۔ نااہلی کے بعد اُنھیں وکلا کی بھاری فیسوں کاپتہ چلا ہے اور موجودہ نظام انصاف میں تاخیرسمجھ آئی ہے کیا قائدِ ثانی کہلوانے کے عارضے کا شکار اِتنا ہی سطحی ہے جو چونتیس سالہ سیاسی سفر میں عوامی مشکلات بھی نہیں جان سکا۔

دنیا کی عدالتی تاریخ میں کہیں ایسا نہیں ہوتاکہ فیصلوں کی بابت عوام سے رائے لی جائے۔بیٹے کی کمپنی میں اقامہ کی آڑ میں قیادت کے منصب پر فائز لوگ منی لانڈرنگ جیسا کھیل کھیلنے والے کو کون سا مُنصف سر آنکھوں پر بٹھائے گا ؟اللہ کا شُکر ہے عدالتیں نہ صرف جعلی پولیس مقابلوں پر انصاف دینے لگی ہیں بلکہ صاف پانی کی فراہمی کے لیے عدالتِ عظمٰی نے تاریخ ساز فیصلہ دیا ہے دودھ کے نام پرٹی وائٹنر ڈے فریش،نورپور،یوایچ ڈی اور اسکائی ملک جیسے زہریلے کیمکل کی فروخت پر پابندی لگاتے ہوئے تمام زخیرہ ضبط کرنے کا حکم تک صادر کرنے لگی ہیں اور ہسپتالوں کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے چیف جسٹس خود معائنہ کرنے لگے ہیں مگر وزیراعلٰی سے لیکر وزیر اعظم رہنے والے شخص نے اقتدار میں خاندان پروری کے علاوہ قوم کی بہتری کا کوئی کام نہیں کیا تو پھرعوام کے حق میں فیصلے کرنے والی بے باک عدلیہ لانے کے عزم پر کوئی کیونکر یقین کرے گا؟نیا عزم ظاہر کرنے والے دراصل نظریہ ضرورت پر یقین رکھنے والی عدلیہ کی تلاش میں ہیں عوام کا نام تو زیبِ داستاں کے لیے لیا جا رہا ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں