یوم یکجہتی کشمیر کے تقاضے
شیئر کریں
بلاشبہ5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پاکستان ہی میںنہیں بلکہ عالم اسلام کے بیشتر ممالک میں انتہائی اہتمام سے منایا جاتا ہے اس روز جلسے جلوس سیمینارزکا انعقاد ہوتا ہے، میلوں لمبی انسانی زنجیر بنائی جاتی ہے، بھارتی بر بریت، سفاکانہ مظالم اور کشمیریوں کے بہیمانہ قتل و غارت گری کے خلاف قرا ر دادیںمنظور کی جاتی ہیں۔پاکستانیوں کا بالخصوص امسال قومی مطالبہ ہے کہ منتخب ارکانِ قومی اسمبلی و سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں پانچ فروری سے قبل ہی قائداعظمؒ کے فرمان” کشمیر پاکستان کی شہ رگ ” کوقومی مو¿قف قراردیا جائے۔ نوجوان مظفر وانی کی شہادت کے بعد چلنے والی تحریک آزادی کے شہداءکو کم ازکم فی کس دس لا کھ روپے ادا کرنے کے اعلان کے ساتھ تمام زخمی مجاھدین کے علا ج معالجہ کے لیے خصوصی اہتمام اور فنڈز مخصوص کیا جائے ۔بیشتر دینی تنظیمیں اور مذہبی و دیگر سیاسی جماعتیں 2017 کے سال کو کشمیر کے نام کرنے کا فیصلہ کر چکی ہیں اب اگر اس کا اہتمام سرکاری طور پر بھی کر لیا جائے اور کشمیر کمیٹی کے افراد فوراً اقوام متحدہ اس کی سلامتی کونسل و دیگر اداروں تک کشمیریوں پر مظالم کی رو ح فرسا داستانیںپہنچائیں تو کشمیریوں کی جدو جہد کو زبردست مہمیز ملے گی اور جلدہی ان شاءاللہ کشمیریوں کی جدو جہد کامیاب ہوجائے گی اور پاکستانیوں کی سیاسی ،اخلاقی اور سفارتی سطح پر امداد سے کشمیرہندو ﺅں کے چنگل سے آزادہو جائے گا۔ جیسے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اسی طرح کشمیری بھی چودہ اگست 2017کا آزادی کا دن پورے تزک و احتشام سے منایا کرتے ہیں۔ دراصل ہماری قیادت ہندوستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کے لیے کوشاںتو رہی ہے مگر مودی سرکار کے آتے ہی’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا’ کی طرح پاکستانی وزارت خارجہ کی تمام کو ششیں رائیگاں ہو کر رہ گئیں۔ ہمارے محترم وزیر اعظم کی بغیر مشاورت بھارت جا کر مودی کی تقریب حلف برداری میںشمولیت اور پھر مودی کا نواز شریف کے گھریلوفنکشن میں آدھمکنا بھی کسی کام نہ آسکا۔بھارت نے کشمیر میں چار ماہ سے زائد کرفیو لگا کر سیفٹی ایکٹ کے تحت مظلومین کی قتل و غارت گری کر کے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاﺅں کے پانی میں شہیدوں کا خون بہایا ہے۔ اس بناپر خدا کی تائیدو نصرت سے امید قوی ہے کہ کشمیر ضرور آزاد ہو کر پاکستان سے آملے گا کہ ان کا متحد ہو جانا ہی اصل فکری تقاضا ہے۔ شہید کشمیری پاکستانی پرچم میں لپٹے دفنائے جاتے ہیں اور کھلم کھلا وادی کشمیر میں جلسے جلوسوں اور گھروں پرسبز ہلالی پرچم لہرارہے ہیں۔ اس جدوجہد کی جلد کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی قوم فرقوں ،مسلکوں،سیاسی و مذہبی گروہوں میںاتحادو اتفاق پیدا کرے اور حکمران ملک کے چالیس سال تک کی عمر کے تمام افراد اور جوانوں کو فوری لازمی فوجی تربیت دیںتاکہ بھارت کے مذموم حملوں پر نوجوان نسل اس کا بھرپور دفاع کر سکے۔ تحریک آزادی ¿ جموں و کشمیر کے تحت قومی مجلس مشاورت کا انعقاد ہو چکا ہے جس کے تحت 26جنوری سے 3فروری تک عشرہ ¿ کشمیر منایا جارہا ہے۔27تا 31جنوری کے دوران تمام بڑے شہروں میں ضلعی سطحوں پر آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد ،یکم اور 2فروری کو ملک بھر کے کسان کشمیر کارواں میں شامل ہو کر بھارتی آبی جارحیت پر احتجاج کرتے ہوئے کشمیریوں کے جہاد سے اتحاد و اتفاق کا اعلان کریں گے۔ جمعة المبارک کے روزعلماءو آئمہ مساجد کشمیر میں بھارتی مظالم کو خطبات کے موضوع بنائیں گے اور بعد نماز جمعہ جلوس نکلیں گے۔ چار فروری کو ملک بھر کی طلباءتنظیمیں اور انجمنیں کشمیر ریلیاں منعقد کرکے یکجہتی کا اظہار کریں گی۔پانچ فروری کا یوم منانے کے لیے یہ بھرپور تیاریوں کا حصہ ہیں۔ سید علی گیلانی نے تو کشمیرکے مسئلے پر موثر جدو جہد نہ کرنے پر مو لانا فضل الرحمٰن کو ہٹانے کا کہا ہے مگر بہتر یہی ہو گا کہ گزشتہ را صلواة و آئندہ را احتیا ط کے مقولے پر عمل کرتے ہو ئے مو لانا صاحب بھی کشمیریوں کی جدو جہد میں آگے بڑھ کر دل و جان سے اپنا موثرکردارادا کریں ۔وزیر اعظم بھی خارجہ امور کے ماہر کو وزارت خارجہ کاتا ج پہنا دیںتاکہ وہ بیرون ملک دورے کرکے اس معاملے کی اہمیت سے عالم اسلام کے ممالک و سبھی بیرونی اداروں کو آگاہ کرسکیں ۔عالم اسلام کے تمام راہنماﺅںاور قائدین کا پاکستان میں کشمیر کے مسئلے پر اجتماع منعقد کیا جائے اور یہ سبھی حکمران بھارتیوں پر واضح کردیں کہ اگر اسی طرح کشمیر میںظلم و بربریت کا بازار مزید گرم رکھا گیا تو پاکستان عالم اسلام کی مدد سے اس کا موثر جواب دینے پر مجبور ہو گا۔ حکمران وسیع البنیاد آل پارٹیز کانفرنس کاانعقاد کریں جس میں اسمبلیوں میں موجو د سیاسی پارٹیوں کو ہی نہیں بلکہ تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کو بھی شمولیت کی دعوت دیں، علماء، وکلائ، تاجروں، ڈاکٹرز، انجےنئرز ،کسان، مزدور، طلباءتنظیموں کی بھی کانفرنسیں بلوائیں ۔غرضیکہ مسئلہ کشمیر کو قومی ایشو کے طور پر اجاگر کیا جائے اگر سپریم کورٹ بھی پانچ فروری تک پاناما لیکس والے مقدمہ کو ملتوی کردے تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہو گا کہ پانچ فروری کے یوم یکجہتی تک میڈیا اور لیڈران کے اختلافی بیان رک جائیں اور قومی ایشو پر اتحاد و اتفاق سے پوری دنیا کو قوم کا متفقہ پیغام پہنچ جائے۔
٭٭